خاک میں نے جو اڑائی تھی بیابانوں میں

خاک میں نے جو اڑائی تھی بیابانوں میں
رسم ابھی تک وہ چلی آتی ہے دیوانوں میں


وحشیوں کو یہ سبق دیتی ہوئی آئی بہار
تار باقی نہ رہے کوئی گریبانوں میں


جس کو حسرت ہو مرے دل سے نکل جانے کی
ایسا ارماں نہ ہو شامل مرے ارمانوں میں


مجھ سے کہتی ہے مری روح نکل کر شب غم
دیکھ میں ہوں ترے نکلے ہوئے ارمانوں میں


وہی اذکار حوادث وہی غم کے قصے
ابرؔ کیا اس کے سوا ہے ترے افسانوں میں