کیا روس قازقستان میں ایک اور یوکرائن بنانے جارہا ہے؟
ایک زمانے کی سپر پاور روس ایک مرتبہ پھر دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے ۔ اس کوشش کے کئی مظاہر ماضی قریب میں دیکھنے کو مل رہے ہیں ، ان ہی میں سے تازہ ترین کارروائی اس وقت سامنے آئی جب روسی فوجیوں نے احتجاج سے متاثرہ قازقستان میں مداخلت کی، جہاں سیکورٹی فورسز نے درجنوں مظاہرین کو ہلاک کر دیا ہے۔ قازقستان کے سب سے بڑے شہر الماتی میں 5 جنوری کو ایک ریلی میں مظاہرین پر پہلے شیلنگ کی گئی اور بعد ازاں براہ راست فائرنگ کی گئی جس سے اندازہ ہے کہ درجن سے زیادہ مظاہر ین ہلاک ہوگئے ہیں۔
یہ مظاہرے کافی شدید نوعیت اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ الماتی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے جمعرات کو مقامی میڈیا کو بتایا کہ "انتہا پسند قوتوں" نے محکمہ پولیس سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر دھاوا بولنے کی کوشش کی۔ روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کی ویڈیو میں مسلح سیکورٹی فورسز کو الماتی کے مرکزی چوک کے قریب فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔دن بھر شہر میں گولیاں چلنے کی متعدد اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں ۔
نیزوزارت داخلہ کے مطابق، کم از کم آٹھ قانون نافذ کرنے والے اہلکار مارے گئے ہیں۔ وزارت صحت نے جمعرات کو بتایا کہ مظاہروں میں 1,000 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 400 کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے، جن میں سے 62 انتہائی نگہداشت میں ہیں۔
روسی مداخلت کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ قازقستان کے صدر کی جانب سے حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے مدد کی درخواست کی گئی ہے لیکن دراصل بین الاقوامی سیاسی تجزیہ نگار اسے ماسکو کی ایک مرتبہ پھر دنیا پر اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کی پالیسی کے تسلسل کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو حالیہ برسوں سے تیزی کے ساتھ دنیا کے سامنے آرہی ہے۔
قازقستان کے مقامی سیکورٹی فورسز نے مظاہروں کے اس سلسلے کو روکنے کی کوشش کی جو ایندھن کی قیمتوں پر احتجاج کے ساتھ شروع ہوا تھا لیکن دراصل مظاہروں کا یہ بڑا سلسلہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے بڑے پیمانے پر غیر تبدیل شدہ سیاسی نظام کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔
سابق سوویت ممالک اب بھی کئی طرح کے معاہدوں میں شامل ہیں اور ان میں سیکورٹی معاہدے بھی شامل ہیں لیکن عمل طور پر یہ پہلا موقع ہے جب سوویت یونین کی تحلیل کے بعد قائم ہونے والی اور چھ سابق ممبران پر مشتمل اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم نے کسی رکن ملک کی مدد کے لیے امن فوج تعینات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اگرچہ اس بلاک کو طویل عرصے سے نیٹو کے لیے روس کے جواب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن اس کی پہلی مشترکہ کارروائی بیرونی طاقت کے حملے کا مقابلہ کرنے کے بجائے گھریلو احتجاج کو ختم کر رہی ہے۔
ان مظاہروں میں بظاہر روس کے خلاف مظاہرین کا غم و غصہ نظر نہیں آتا لیکن اگر روس کی جانب سے ایک غیر مقبول اور تیس سال سے موجود حکومت کی حمایت مسلسل جاری رہتی ہے تو احتجاج کا رخ روس کی مداخلت کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو کہ روس کے لیے ایک امتحان ہوگا۔
یاد رہے کہ قازقستان میں روس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک نذر بایوف کی صدارت میں ایک ہی حکومت قائم ہے۔ بظاہر یہاں کوئی سیاسی بحران نہیں ہے لیکن گزشتہ ہفتے تیل کی قیمتوں میں اضافے پر ہونے والے احتجاج نے خاصی شدت اختیار کرلی ہے اور بہت سے مظاہرین اب تیل کی قیمتوں میں کمی کی بجائے حکومت کو رخصت کرنے کی بات کررہے ہیں۔
قازقستان کے مسئلے کو روس کی پالیسی پر تنقید کرنے والے تجزیہ نگاروں کے نزدیک بڑی باریک بینی سے دیکھا جارہا ہے اور حالیہ مظاہروں کو مغربی و امریکی میڈیا روس کے خلاف اپنے خیالات کے اظہار کے لیے بھی استعمال کررہا ہے۔میڈیا کے بعض نمائندوں کا کہنا ہے کہ قازقستان میں اگلا یوکرین بننے کا خدشہ ہے۔