کون کہتا ہے فقط وقت گزاری ہوئی ہے

کون کہتا ہے فقط وقت گزاری ہوئی ہے
میں نے یہ عمر ترے عشق میں ہاری ہوئی ہے


مجھ کو چلتے ہوئے محسوس نہیں ہوتا تھا
کیسے ہجرت مرے اعصاب پہ طاری ہوئی ہے


میں جدائی کی اذیت کو سمجھ سکتی ہوں
زندگی میں نے بھی فرقت میں گزاری ہوئی ہے


سب سے ممتاز کیا میری طلب نے اس کو
اب کے عشاق میں جب رائے شماری ہوئی ہے


یہ محبت بھی مرے ہاتھ کی پروردہ ہے
اس کی یہ مانگ مری خود کی سنواری ہوئی ہے


تیری چاہت میں سنوارا ہے غزل کو میں نے
آ ذرا دیکھ کہ کیا گوٹا کناری ہوئی ہے