کثرت اولاد
سنیے اک ناعاقبت اندیش کی فریاد ہے
کہہ رہا ہے وہ مجھے اپنی جوانی یاد ہے
میں جسے کہتا تھا گھر وہ آج طفل آباد ہے
میری تنہا جان ہے اور کثرت اولاد ہے
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب یہ مفلسی چھائی نہ تھی
''عاشقی قید شریعت میں'' ابھی آئی نہ تھی
کس قدر تھے مطمئن گو جیب میں پائی نہ تھی
کثرت اولاد کے باعث یہ رسوائی نہ تھی
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''
کیا خطا میری کہ جو بچہ ہوا جڑواں ہوا
اور مع ہم زاد عاجز ہی کے گھر میہماں ہوا
میرے گھر آیا تو گویا داخل زنداں ہوا
ملک میں غلے کی قلت کا نیا عنواں ہوا
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''
ہو گئے ہیں ایک درجن آج تک لخت جگر
ایک ان میں ریفری گیارہ کھلاڑی ہیں مگر
اس کھلاڑی ٹیم میں فٹ بال ہے ان کا پدر
اس کو دوڑاتے ہیں یہ بچے ادھر گاہے ادھر
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''
جا کے پہلے کے لیے موٹی سفارش لاؤں گا
موقع بے موقع اعزہ کو بہت دوڑاؤں گا
اپنے سارے دوستوں کی جان کو آ جاؤں گا
اور کسی دفتر میں اس کو نوکری دلواؤں گا
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''
دوسرا بیمار ہے لاؤں گا میں اس کی دوا
ڈھونڈھتا ہوں تیسرے کے داخلے کو مدرسہ
جا کے چوتھے نے جو ہمسائے سے جھگڑا کر لیا
اس کو نیکی دے خدا سے کر رہا ہوں یہ دعا
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''
پانچواں ہے اور چھٹا ہے اور پتنگیں اور ڈور
ساتواں ہے، آٹھواں ہے اور نواں کرتے ہیں زور
کوئی بچہ چیختا ہے اور کوئی کرتا ہے شور
کیونکہ یہ اک دوسرے کو چھیڑ کر کرتے ہیں بور
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''
ہیں جو دسویں، گیارہویں، دونوں ہیں کندھوں پر سوار
یہ دلا دو وہ دلا دو کہہ رہے ہیں بار بار
بارہواں بچہ جو ہے وہ کر رہا ہے ماں کو خوار
رات بھر روتا ہے اس کی گود میں وہ نابکار
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''
گھر میں موٹر بھی برائے بار برداری نہیں
ساتھ لے جانے میں بچوں کے بجز خواری نہیں
ایک بچہ گود میں لے لوں کہ وہ بھاری نہیں
وہ مگر درجن ہیں میں انسان ہوں لاری نہیں
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''
بات سچ یہ ہے کہ ہم تھے جس زمانے میں جواں
خاندانی قسم کی منصوبہ بندی تھی کہاں
اور اشیائے ضروری بھی نہ تھیں اتنی گراں
آج میں ہوں اور میری مفلسی کی داستاں
''اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں''