کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کی بھارتی کوشش، پاکستان کے لیے خطرناک منصوبہ کیا ہے؟
بدھ سترہ اگست کو جموں اور کشمیر میں مودی سرکار کے تعینات کردہ چیف الیکٹورل افسر ہردیش کمار نے کشمیر اور جموں میں عارضی طور پر مقیم افراد کو کشمیری انتخابات میں ووٹرز بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ مقامی ماہرین اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اس فیصلے کے بعد پچیس لاکھ کے لگ بھگ ایسے نئے ووٹرز کشمیر میں ووٹ کر سکیں گے جو بھارتی حکومت کی طرف سے مختلف امور کے لیے جموں اور کشمیر میں عارضی طور پر مقیم ہیں۔ ان میں فوجی اور دیگر حکومتی اہلکار، نجی کمپنیوں کے ملازمین اور دیگر عارضی طور پر مقیم افراد شامل ہیں۔
مودی سرکار کی قبل از انتخابات دھاندلی :
غالب امکان ہے کہ ان میں سے بیشتر مودی سرکار کے حامیان ہوں گے۔ پہلے سے موجود چھیہتر لاکھ ووٹرز میں جب یہ پچیس لاکھ شامل ہوں گے تو انتخابی نتائج کو کس طرف موڑ سکتے ہیں مجھے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ وضاحت کے لیے بتاتا چلوں کہ بھارتی انتخابی قوانین میں فوجی اور دیگر سرکاری اہلکار کو ووٹ کرنے کی ممانعت نہیں۔ اب جموں اور کشمیر میں انتخاب سے پہلے پچیس لاکھ ایسے نئے ووٹرز شامل کرنا جن کے بارے میں قوی امکانات ہوں کہ چاہتے نہ چاہتے بی جے پی کو ووٹ کریں گے، سیدھی سیدھی قبل از انتخابات دھاندلی ہے۔
مودی حکومت کا اصل خطرناک منصوبہ کیا ہے؟
اس کی مذمت پاکستان دفتر خارجہ نے بھی کی ہے، لیکن بات اصل انتخابی دھاندلی سے کہیں خطرناک ہے، جس کی طرف نہ پاکستانی ریاست توجہ دے رہی ہے اور نہ میڈیا۔ مقامی کشمیری چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بھارتی سرکار کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ لیے بیٹھی ہے۔ جموں میں وہ ایسا کر بھی چکی ہے جہاں اب چالیس فیصد سے کم مسلمان ہیں اور ساٹھ فیصد سے زائد ہندو۔ وادی کشمیر اب ہدف ہے جہاں نوے فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ یہ اعداد و شمار 2011 کی مردم شماری کے ہیں جس کو گیارہ برس بیت چکے۔ اس کے بعد ہندوتوا حکومت برسراقتدار آئی اور وادی کشمیر میں ہندوؤں کی تعداد بڑھانے کے لیے بہت سے اقدامات ہوئے۔
جموں اور کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنا صرف خدشہ نہیں بلکہ بھارتی حکومت کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔ کیونکہ جب جموں اور کشمیر میں ہندو اکثریت ہو گی تو ہی وہ وہاں استصواب کروا کر کشمیری قبضے کو قانونی غلاف پہنا سکیں گے۔ ہندوتوا حکومت منظم طریقے سے تسلسل کے ساتھ اپنے اس منصوبے پر گامزن ہے۔ اگر منصوبہ اسی طرح ہے جیسا کہ نظر آ رہا ہے تو بھارتی حکومت اپنے ہدف سے صرف مزید دو بڑے اقدامات کے فاصلے پر ہے۔ لیکن اگلے دو اقدامات پر کشمیری مزحمت کر پائیں گے یا دب جائیں گے؟ اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔
آرٹیکل 370 کیوں ختم کیا گیا؟؟
2014 میں مودی سرکار برسراقتدار آئی تو کشمیر میں اس نے مفتی سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ متحد حکومت بنائی۔ 1947 سے لے کر آج تک کشمیر کا اقتدار یا تو شیخ عبدللہ کی نیشنل کانفرنس کے پاس رہا ہے یا مفتی سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کے ۔ شیخ اور مفتی صاحب کے خاندان ہی دہلی کے لیے ہمیشہ قابل قبول رہے ہیں۔ لیکن جموں اور کشمیر کی ریاست کی خصوصی حیثیت کشمیری سیاست میں پرو دہلی عناصر کے لیے بھی سرخ لکیرتھی ، جو مودی سرکار نے پانچ اگست 2019 کو پار کر لی تھی۔ اس خصوصی حیثیت میں شامل تھا کہ کشمیر میں کشمیریوں کے علاوہ کوئی نہ زمین خرید سکتا ہے، نہ سرکاری نوکریاں حاصل کر سکتا ہے، نہ کوئی مستقل رہائش اختیار کر سکتا اور نہ کشمیری طالبعلموں کے وظائف کوئی اور حاصل کر سکتا ہے۔ کشمیر اپنا آئین بھارتی آئین سے علیحدہ رکھتا ہے جس کے تحت اس کے قوانین تشکیل پائیں گے۔
کشمیر بھارت کے ماتحت صرف چار شعبہ جات میں ہے۔ اس میں خارجہ امور، دفاع، مواصلات اور خزانہ شامل ہیں۔ اس خصوصی حیثیت کے لیے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 اور 35A موجود تھے۔ بھارت کے لیے کشمیر میں تھوڑی بہت حمایت انہیں کی بنیاد پر موجود تھی۔ ورنہ بھارت ہر انتخابات میں دھاندلی کیوں کرواتا اور اب تک اس نے استصواب نہ کروا لیا ہوتا۔ 1949 میں آرٹیکل 370 بھارتی آئین کا حصہ بنا تھا تو شیخ عبدللہ کانگرس حکومت کے حلیف رہے تھے۔ لیکن اس سرخ لکیر کے پار ہو جانے کے بعد اب بھارت کی کشمیری مسلمانوں میں کوئی حمایت باقی نہیں۔ لیکن بھارت تو کشمیر کو اٹوٹ انگ سمجھتا ہے۔ اب جب کشمیر میں کوئی حمایت باقی ہی نہیں تو بھلا بھارت کیسے کشمیر کو اپنے ساتھ جبراً رکھ سکتا ہے۔ اس کے لیے منصوبہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ پہلے کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلو۔ پھر استصواب کرواؤ اور کشمیر کو مستقل اپنے ساتھ ملا لو۔
اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری تھا کہ پہلے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر کے اسے براہ راست دہلی کے کنٹرول میں لایا جاتا۔ پھر وہاں اجازت دی جاتی کہ غیر کشمیری مستقل رہائش کر سکیں، زمین خرید سکیں اور تجارت وغیرہ کر سکیں۔ پھر ایسے ہندو جو ہندوتوا کے نظریات پر یقین رکھتے ہوں ،کو لا کر بسایا جائے اور ان کی حکومت بنائی جائے۔ پھر مسلمانوں کو ان کے گھروں اور علاقوں سے بے دخل کر کے کشمیر سے نکالا جائے اور بعد میں استصواب کروا کر کشمیری مسئلے کا مستقل حل کر لیا جائے۔
پاکستان کے لیے اصل پریشانی کیا ہے؟؟
یہ منصوبہ شروع ہو چکا ہے اور کشمیری عسکری مزاحمتی تحاریک کو پاکستان پر دباؤ ڈال کر قابو میں لایا جا چکا ہے تاکہ وہ مزاحمت نہ کر پائیں۔ پھر پانچ اگست 2019 کے بعد سے غیر کشمیریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے، مستقل رہائش وغیرہ کی اجازت بھی مل چکی ہے۔ اس وقت یہ منصوبہ ہندو حکومت بنانے کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اسی کے لیے مئی میں پہلے کشمیر کی حلقہ بندیوں میں رد و بدل کیا گیا تھا اور اب پچیس لاکھ نئے ووٹروں کی گنجائش نکالی گئی ہے۔ کشمیر میں اس وقت 2018 سے حکومت نہیں ہے۔ بھارتی حکام کہہ رہے ہیں ایک بار انتخابی تبدیلیاں ہوں لیں پھر انتخاب کروایا جائے گا۔ اگر کشمیر میں سخت گیر ہندوتوا حکومت آتی ہے تو اگلا قدم مزید ہندو بسانے اور مسلمانوں کی بے دخلی کا ہوگا۔
آپ ذرا سوچیے جب یہ مسلمان اپنی جگہوں سے بے دخل کیے جائیں گے تو ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا؟ بھارت یا پاکستان؟ اب بھارتی حکومت انہیں اس لیے تھوڑی بے دخل کر رہی ہے کہ اپنے دیگر علاقوں میں جگہ دے دے۔ پھر کیا پاکستان لاکھوں پناہ گزینوں کے بحران میں مبتلا ہونے جا رہا ہے، جنہیں ہمیں جگہ دینا ہوگی؟ یہ تو ہمارے کرم فرما، کشمیر پر نظر رکھنے والے پالیسی میکر سوچیں جو مبینہ طور پر جموں کشمیر کو اب صرف بھارتی مسئلہ سمجھ بیٹھے ہیں اور کوئی عملی اقدام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے بعد وہ یہ بھی سوچیں کہ کیا بھارت جموں وکشمیر قبضانے کے بعد وہیں ٹھہرا رہے گا یا اس کے عزائم کچھ اور ہیں؟ یاد رہے کہ بھارت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستانی مقبوضہ علاقے کہتا ہے۔ باقی کرم فرما سوچیں اگر توڑ جوڑ سے فرصت ملے تو۔