فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ یکساں ہے
کشمیر اور فلسطین ایک تاریخی جدوجہد کا نام ہے جو دو متنازعہ اور مقبوضہ علاقے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے پارٹیشن کے بعدتنازعہ کشمیر شروع ہوا،دونوں ممالک کے مطابق جمو و کشمیر کا پورا خطہ ان کا ہے۔ فلسطین میں مسجدِ اقصیٰ چونکہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے تو گویا یہودیوں کا دعویٰ یہ ہے کہ فلسطین ان کی ریاست ہے اس لیے وہ قابض ہونا چاہتے ہیں۔ اگرچہ کشمیر اور فلسطین جغرافیائی لحاظ سے دو مختلف علاقے ہیں ، اس کے باوجود موجودہ حالات کو دیکھیں تو ان میں بہت مماثلت نظر آتی ہے۔کشمیر اور فلسطین دونوں ظلم و بربریت کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور جس کے نتیجے میں بہت مرتبہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا٫میں جنگی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔
کشمیر اور فلسطین کے تنازعہ میں بہت سی باتیں یکساں ہیں:
سب سے پہلی بات،دونوں خطوں سے اقوامِ متحدہ نے ١٩٤٨ء میں وعدہ کیا تھا کہ انھیں حقِ خود ارادیت دیا جائے گا ، مگر نہ توفلسطین کو اپنا علاقہ ملا اور نہ ہی اب تک کشمیر کو یہ اختیار حاصل ہوا کہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ آیا وہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا ہندوستان کا ۔اقوامِ متحدہ کی اس سلسلے میں ناکامی کے سبب اب تک نہ صرف لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں اور زندگیاں تباہ ہوئیں بلکہ اقتصادی طور پر بھی کسی قسم کی ترقی نہ ہوسکی اور دونوں خطے معاشی طور پر بہت کمزور ہوتے گئے۔مقبوضہ کشمیر میں موجودہ منفی معاشی صورتحال یہ ہے کہ بےروزگاری کی شرح ١٥ فیصد ہے،جب کہ فلسطین میں بیروزگاری کی شرح ۲٥سے٣٠ فیصد ہے۔
دونوں خطوں کے مسلمانوں کو انتہا درجے کی غربت، بےروزگاری اور مواقعوں کی عدم فراہمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،انتہا درجے کے مصائب اور تباہ کاریوں میں گھرے ان دونوں خطوں کے مسلمان باطل کے سامنے گٹھنے ٹیکنے سے انکاری ہیں۔انسانی حقوق کی پامالی تقریباًروز کا معمول ہے۔فلسطین میں تقریباً روزانہ ہی حلاکتیں ہوتی ہیں،ہزاروں کی تعداد میں لوگ بشمول عورتیں اور بچے اسرئیلی جیلوں میں سیاسی قیدی بنا کر لائے جاتے ہیں، نوجوانوں پہ تشدد کیا جاتا ہے،ان کے کھیتوں اورباغات میں آگ لگادی جاتی ہے ۔غزہ میں آئے دن بمباری کرکے وہاں کے رہائشی اور تعمیرات کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
کشمیر کی بات کریں تو ہندوستانی حکومت یہاں اپنی لاکھوں کی تعداد میں فوج اور پولیس فورس کے ساتھ غیر قانونی طور پر قابض ہوئی بیٹھی ہے،اور انتہائی سفاکانہ اور وحشی طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہے،ظلم و بربریت کی انتہا ہے۔بھیڑ میں ان قابض فوجوں کی فائرنگ کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوتے ہیں۔ہزاروں معزور ہوجاتے ہیں اور ہزاروں بے گناہوں کو قیدکر کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
١٩۷٠ءکے اوائل تک اسرائیل فلسطین کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتا تھا،فلسطینی وزیر اعظم گولڈا میر کے مطابق یہ ایک زمین کا ٹکڑا ہے بِنا لوگوں کے، ان لوگوں کے لیے جو بنا زمین کے ہیں۔ یہ فلسطین کے تین نسلوں کے اتحادیوں اور عسکریت پسندوں کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے جس نے مسئلہ فلسطین کو دنیا کے ہر کونے میں روشناس کرایا ۔
البتہ کشمیر کے مقابلے میں فلسطین کا ساتھ دینے کے لیے کئی ہاتھ آگے بڑھے ، اس کی کئی وجوہات ہیں،ایک اس کی سرحدیں یورپ، ایشیا اور افریقا سے جڑتی ہیں،دوسرا یہ یہودیوں،عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے اور تیسرا یہ جیواشم ایندھن بنانے والی فیکٹریوں کا مرکز ہے۔ بے شک اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کشمیریوں کا حق خودارادیت کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ یہ ہم سب کے لیے ایک سوال کھڑا کرتا ہے کہ ایسا کیا جائے کہ کشمیریوں کے جائز مطالبہ کو ایسے ہی تسلیم کیا جائے جیسا کہ مسئلہ فلسطین کو کیا جارہا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر ہندوستانیوں کے لیے انا کا مسئلہ بھی بنتا جارہا ہے۔اصولاً دیکھا جائے تو کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور کشمیری خود بہ حیثیت قوم خود کو پاکستانی تصور کرتے ہیں اس کے باوجود ہندوستان اس مسلمہ حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے اپنا ظلم و تشدد مظلوم کشمیریوں پر روا رکھے ہوئے ہے۔دوسری جانب نظر کریں تو اسرائیل اپنی طاقت کے بل بوتے پر فلسطین کے مسلمانوں سے ان کا خطہ غضب کرکے اسے ایک یہودی ریاست کی شکل دے کر دنیا کے نقشے پر ابھارنا چاہتا ہے۔ورنہ کیا ہم یہ دیکھ نہیں سکتے کہ ہندوستان نے لاکھوں کی تعداد میں جو فوجی کشمیر میں تعینات کیے ہیں ان میں ہر فوجی پر سالانہ کتنا خرچہ آتا ہوگا؟اگر یہی رقم ہندوستان اپنے کڑوڑوں بے روزگار طبقے پر خرچ کرے تو ملک کی زراعت اور صنعت کتنی ترقی کرسکتی ہے۔
مختصراًیہ کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر اور فلسطین کو یکساں محکومیت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا جس کے باعث دونوں خطے ایک جدوجہد مسلسل سے ہمکنار ہیں۔ اس تحقیق کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے کہ کشمیر جنوبی ایشیا کا فلسطین ہے اور فلسطین مشرق وسطٰی کا کشمیر تو غلط نہ ہوگا۔
ہم بحیثیت مسلمان اپنے روزمرہ کے مباحثوں میں،تقریروں اور تحریروں میں کشمیریوں کی اس طویل جدوجہد کا پرچار کرسکتے ہیں،اقوامِ متحدہ کے نمائندوں سے درخواست کرسکتے ہیں کہ اس مسئلہ کو بار بار زیر بحث لایا جائے،اور اس مسئلہ کو عالمی دنیا کے سامنے لایا جائے، ہندوستان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنا غیر قانونی قبضہ ہٹائے۔البتہ فلسطین کے برعکس کہ جہاں کینیڈین گورنمنٹ نے ایک منفی کردار ادا کرتے ہوئے پارٹیشن کا مشورہ دیا تھا،کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا بھرپور ہامی رہی ہے ۔مگر افسوس کہ موجودہ چند برسوں میں کینیڈین گورنمنٹ نے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے۔
کسی پر تشدد کرنا اور اسے اس کی بنیادی ضروریات سے محروم کرنا عالمی سطح پرانسانی حقوق کے اصولوں کے تحت ایک سنگین جرم ہے۔جس کے مرتکب ہندوستان اور اسرائیل ہیں ،جنہوں نے تاریخ میں ظلم و بربریت کی داستان رقم کی ہے اور اب تک تشدد کا یہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔اب اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ ان دونوں خطوں کو انصاف دلائے اور دونوں قابض ریاستوں پر سختی سے اپنا قبضہ ان ریاستوں سے ہٹانے کا حکم دے۔