کروں میں کس طرح شکوہ کسی سے دل فگاری کا

کروں میں کس طرح شکوہ کسی سے دل فگاری کا
کہ دل بھوکا ہے سو سو زخم کھا کر زخم کاری کا


گلستاں پر بڑا احسان تھا ابر بہاری کا
نہ ہوتا اس کے دامن میں جو سامان برق باری کا


بہاریں بار بار آئیں چمن میں گل کھلے لاکھوں
نہ آیا ایک بھی جھونکا ادھر باد بہاری کا


کنار سندھ گزری ہے مری اک عمر اے شبنم
سلیقہ مجھ کو دریا نے سکھایا اشک باری کا


غموں کے جمع کرنے میں ضرر ہے اے دل ناداں
کہ عہد نو ہے دشمن شیوۂ سرمایہ داری کا


عزیزو دوستو وہ وقت بھی اب آنے والا ہے
یقیں جب آئے گا تم کو مری بے اختیاری کا


ریا کاری میں اے محرومؔ تجھ سا بھی کوئی ہوگا
کہ ہر محفل میں چرچا ہے تری پرہیزگاری کا