کرتے ہیں مزدوری بچے جاتے نہیں اسکول
کرتے ہیں مزدوری بچے جاتے نہیں اسکول
اس میں ان کی بھول نہیں ہے یہ ہے بڑوں کی بھول
ان کی حالت دیکھ کے دل سے نکلتی ہے اب ہائے
ننھے ہاتھوں سے گاہک کو جب وہ پلائیں چائے
مزدوری میں ان کا بچپن یوں ہی بیتا جائے
تازہ ہوا کی جگہ پہ وہ کھاتے ہیں گرد اور دھول
کرتے ہیں مزدوری بچے جاتے نہیں اسکول
ورکشاپ میں جاتے ہیں وہ کرنے کے لیے کام
کام میں ان کی صبحیں گزریں کام میں گزرے شام
ظالم دنیا دار ہیں ان کو دیتے تھوڑے دام
آج کی اس دنیا میں کب ہے کوئی یہ خوب اصول
کرتے ہیں مزدوری بچے جاتے نہیں اسکول
عمر ہے ان کی کھیلنے والی کھیلیں کہاں وہ جا کر
پانی پی کر جی لیتے ہیں اپنی بھوک مٹا کر
ہفتے بعد بھی سو دو سو کو خوش ہوتے ہیں پا کر
اپنی زیست گنوا دیتے ہیں مزدوری میں فضول
کرتے ہیں مزدوری بچے جاتے نہیں اسکول
بچوں کی مزدوری لعنت جرم یہ ایک بڑا ہے
اک ناسور ہے جو اپنی عزت کی رہ میں کھڑا ہے
کون ہے جو اس ظلم کو روکے جو ہر جا پہ پڑا ہے
بچوں کو مدرسے میں بھیجو مت دو بحث کو طول