کریں گے چوٹ ہواؤں پہ کارگر تو ہو

کریں گے چوٹ ہواؤں پہ کارگر تو ہو
بہاؤ ان کا بدل جائے یہ اثر تو ہو


سفر یہ زندگی کا اس قدر ہے لازم کیوں
سفر میں ہم ہیں مگر ہم میں یہ سفر تو ہو


معانی منزلوں اور راستوں کے ہے تب ہی
کہ لوٹنے کو مسافر کے کوئی گھر تو ہو


ہاں لطف روٹھنے کا بھی انہیں ملے لیکن
ہمارے پاس منانے کا کچھ ہنر تو ہو


جبیں پہ خاک یہاں کی لگا کے گھومیں گے
گلی سے اپنی کبھی ان کا بھی گزر تو ہو


جدھر وہ ہے وہاں ہم نہ ہو تو کدھر جائیں
ادھر وہ ہو نہیں سکتے تو ہم ادھر تو ہو


رہی تلاش ہمیں عمر بھر سحر کی سو
تلاش میں کہیں اپنی بھی اک سحر تو ہو


نظر اگر ہے تری تو نظر نہیں آتی
نظر کو آئے نظر ایسی اک نظر تو ہو