کراچی
دھوئیں اور دھول میں کالا گلاب
یہاں پر ساتواں در اسم سے محروم
بوسے کی ولادت کے لیے سوکھے ہوئے ہونٹوں کی شکنیں
برف کی قاشیں
زمیں کا بانجھ پن اپنا حصار
شنیدہ ناشنیدہ راستوں کی گرم راتیں
جسم کے بالوں کا اونی کوٹ
سندھ کے دریا کی لہروں کی روانی
دو طرف کیلوں کے باغیچے
نگاہوں کی بکھرتی ریت میں تعمیر ہوتے باربر
سہ منزلہ اشجار کے پیچھے لرزتا ٹرام کا لوہا
گزرتی رات کی چربی پہ جمتے آئنے سے دن
خس و خاشاک کی باڑوں کے پیچھے سم زدہ عمروں
کے بوٹے
پرشکن چوغوں میں ڈھلتے ماس بے گریہ
یہی گردان پیلے حرف کی زنجیر
گملوں میں اگائے سارے پودے
قفل بن کر سامنے ہیں
جسم کے آٹے میں دونوں ہاتھ
دن اور رات دن اور رات گوندھتے ہیں
پہلی سورج کی کرن کے ساتھ
مچھیروں کے تنے رسے
سمندر کی جڑی ہنسلی پہ گرتے ہیں