کراں تا کراں

جو مزہ چاہت میں ہے
حاصل میں اس کو ڈھونڈھنا بے کار ہے
ہو کہاں تم کس جہاں میں
کیوں مجھے معلوم ہو؟
دھند میں ہو خواب میں
یا آسماں کی قوس میں
یا موج کی گردش میں ہو
تم ہاتھ کی ریکھا کے اندر ہو کہیں
یا دور سناٹوں کے ٹکراؤ سے پیدا
ان سنی آواز کی ریزش میں ہو
چاہے کہیں بھی ہو
مری چاہت کے پھیلے بازوؤں کے
حلقۂ موہوم میں موجود ہو!
لمس میں حدت بہت ہے
اور ستاروں کی چبھن کا بھی مجھے احساس ہے
بند مٹھی میں دبے موتی
کی لذت سے بھی ہوں میں آشنا
پر بیاں کیسے کروں
وہ لطف جو چاہت کی پھیلی باس کی
مدہوش کن ٹھنڈک میں ہے
چاہت کے ہر دم
پھیلتے آفاق کی لرزش میں ہے!!