کر چکی غم سے سرفراز مجھے

کر چکی غم سے سرفراز مجھے
بھول جا اے نگاہ ناز مجھے


پھوٹ جائیں نہ آبلے دل کے
نہ ستا میرے غم نواز مجھے


کب تک آخر لہو رلائے گا
تیرا حسن کرشمہ ساز مجھے


کون اب خاک چھانے در در کی
کھینچ لے نقش پائے ناز مجھے


رگ جاں سے قریب ہو کے بھی
نہ کیا آشنائے راز مجھے


کون اپنا ہے کون بیگانہ
ہاں کبھی تھا یہ امتیاز مجھے


اے شفقؔ ان کی بے نیازی نے
کر دیا خود سے بے نیاز مجھے