کمزوری

نسیم خلد بے خوفی سے میرے گھر میں در آئی
کہا میں نے کہ تم
کب شعلۂ جوالہ بن جاؤ گی خاشاک دل و جاں کو
جلا کر خاک کرنا ہے
بدن پر تھرتھری طاری ہے دیواریں لرزتی ہیں
وہ ٹھنڈک ہے کہ بالوں کی جڑوں میں خون
جمتا جا رہا ہے
ہر کڑی چھت کی سکڑ کر چشم افیوں نوش کے مانند
چھوٹی ہوتی جاتی ہے


وہ دیکھوں وہ رہی اک گربہ مسکیں چھپی کونے میں بیٹھی ہے
اب ان تکتی ہوئی آنکھوں کے بھورے ملگجے بادل
گل و لالہ شرر برسا نہیں پاتے
وہ ٹھنڈک ہے کہ قلب ہوش یخ بستہ ہوا جاتا ہے تم کب
شعلۂ جوالہ بننے والی ہو
بولو


نسیم خلد بولی مرے تار نفس میں یوں
نہاں سفاک لالی ہے لہو جیسے رگ نازک میں پوشیدہ مجھے
آغوش میں لے کر نچوڑو تم تو انگارے ٹپکتے دیکھ پاؤ گے مجھے
مٹھی میں بھر کر منہ میں رکھ لو پی کے دیکھو وہ سنہرا
تیر ہوں میں جو گلے میں چبھ کے بن جاتا ہے
انگارا تمہیں جلنا نہیں آتا