کمال شاعری کیلئے ضروری شرائط
شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لئے ضروری شرطیں حسب ذیل ہیں۔ یہ وہ شرطیں اور خاص باتیں ہیں جوشاعر کوغیر شاعر سے تمیز دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک وہی ہے یعنی تخیل اور دوم محاکات یعنی صحیفہ فطرت کے مطالعے کی عادت اور الفاظ پر قدرت۔ سب سے مقدم اورضروری چیزجو شاعر کوغیرشاعر سے تمیز دیتی ہے قوت متخیلہ یا تخیل ہے جس کو انگریزی میں امیجینیشن (Imagination) کہتے ہیں۔ یہ قوت جس قدرشاعر میں اعلیٰ درجے کی ہوگی اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجہ کی ہوگی اور جس قدرادنی درجے کی ہوگی اسی قدر اس کی شاعری ادنی درجے کی ہوگی۔ یہ وہ ملکہ ہے جس کو شاعر اپنے ساتھ ماں کے پیٹ سے لے کر نکلتا ہے اور جو اکتساب سے حاصل نہیں ہو سکتا۔اگر شاعرکی ذات میں یہ ملکہ موجود ہے اور باقی شرطوں میں (جوکمال شاعری کے لئے ضروری ہیں) کچھ کمی ہے تو وہ اس کمی کا تدارک اس ملکہ سے کر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ ملکہ فطری کسی میں موجود نہیں ہے تو اور ضروری شرطوں کا مجموعہ اس کے قبضے میں ہو، وہ ہرگز شاعر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جوشاعر کووقت اور زمانے کی قید سے آزاد کرتی ہے اور ماضی واستقبال کو اس کے لئے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ آدم اور جنت کی سرگزشت اور حشرونشر کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ گویا اس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں اور ہر شخص اس سے ایسا متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہئے۔ اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیوان جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کر سکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھرجاتی ہے۔ جو نتیجے وہ نکالتا ہے گو وہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں ہوتے لیکن جب دل اپنی معمولی حالت سے کسی قدر بلند ہو جاتا ہے تو وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً فیضی کہتا ہے،سخت است سیاہی شب منلخت زشب است کو کب مناس پر منطقی قاعدے سے یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ رات کی تاریکی سب کے لئے یکساں ہوتی ہے پھر ایک خاص شخص کی رات سب سے زیادہ تاریک کیونکر ہو سکتی ہے؟ اور تمام کواکب ایسے اجرام ہیں جن کا وجود بغیر روشنی کے تصور میں نہیں آ سکتا۔ پھر ایک خاص کوکب ایسا مظلم اور سیاہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اس کو کالی رات کا ایک ٹکڑا کہا جا سکے؟ مگرجس عالم میں شاعر اپنے تئیں دکھانا چاہتا ہے وہاں یہ سب نا ممکن باتیں ممکن بلکہ موجود نظر آتی ہیں۔ یہی وہ ملکہ ہے جس سے بعض اوقات شاعر کا ایک لفظ جادو کی فوج سامنے کھڑی کر دیتا ہے اور کبھی وہ ایسے خیال کو جو کئی جلدوں میں بیان ہو سکے، ایک ایک لفظ میں ادا کر دیتا ہے۔تخیل یا امیجینیشن کی تعریف کرنی بھی ایسی ہی مشکل ہے جیسی کہ شعر کی تعریف۔ مگر من وجہ ِِاس کی ماہیت کا خیال ان لفظوں سے دل میں پیدا ہو سکتا ہے۔ یعنی وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجربہ و مشاہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے، یہ اس کو ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے۔ اور پھر اس کو الفاظ کے ایسے پیرائے میں جلوہ گر کرتی ہے جو معمولی پیرایوں سے بالکل یا کسی قدر الگ ہوتا ہے۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ تخیل کا عمل اور تصرف جس طرح خیالات میں ہوتا ہے اسی طرح الفاظ میں بھی ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات شاعر کا طریقہ بیان ایسا نرالا اور عجیب ہوتا ہے کہ غیر شاعر کا ذہن کبھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہی ایک چیزہے جو کبھی تصورات اور خیالات میں تصرف کرتی ہے اور کبھی الفاظ اور عبارات میں۔ اگرچہ اس قوت کا ہر ایک شاعر کی ذات میں موجود ہونا نہایت ضروری ہے لیکن ہمارے نزدیک اس کا عمل شاعر کے ہر ایک کلام میں یکساں نہیں ہوتا، بلکہ کہیں زیادہ ہوتا ہے، کہیں کم ہوتا ہے اور کہیں محض خیالات میں ہوتا ہے۔ کہیں محض الفاظ میں۔ یہاں چند مثالیں بیان کرنی مناسب معلوم ہوتی ہیں۔غالب دہلویاور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیاجام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہےشاعرکے ذہن میں پہلے سے اپنی اپنی جگہ یہ باتیں ترتیب وار موجود تھیں کہ مٹی کا کوزہ ایک نہایت کم قیمت اور ارزاں چیز ہے جو بازار میں ہروقت مل سکتا ہے اور جام جمشید ایک ایسی چیز تھی جس کا بدل دنیا میں موجود نہ تھا۔ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ تمام عالم کے نزدیک جام سفال کی کوئی خوبی ایسی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ جام جم جیسی چیز سے فائق اور افضل سمجھا جائے۔ نیزیہ بھی معلوم تھا کہ جام جم میں شراب پی جاتی تھی اور مٹی کے کوزے میں بھی شراب پی جا سکتی ہے۔ اب قوت متخیلہ نے ان تمام معلومات کو ایک نئے ڈھنگ سے ترتیب دے کر ایسی صورت میں جلوہ گر کر دیا کہ جام سفال کے آگے جام جم کی حقیقت نہ رہی اور پھر اس صورت میں موجود فی الذہن کو بیان کا ایک دل فریب پیرایہ دے کر اس قابل کر دیا کہ زبان اس کو پڑھ کر متلذذ اور کان اس کو سن کر محظوظ اور دل اس کو سن کر متاثر ہو سکے۔اس مثال میں وہ قوت جس نے شاعر کی معلومات سابقہ کو دوبارہ ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشی ہے وہ تخیل ہے اور اس نئی صورت موجود فی الذہن نے جب الفاظ کا لباس پہن کرعالم محسوسات میں قدم رکھا تو اس کا نام شعر ہوا ہے۔ نیز اس مثال میں تخیل کا عمل خیالات اور الفاظ دونوں کے لحاظ سے بے مرتبہ غایت اعلیٰ درجے میں واقع ہوا ہے کہ باوجود کمال سادگی اور بے ساختگی کے نہایت بلند اور نہایت تعجب خیز ہے۔(۲) غالب کا اسی زمین میں دوسرا شعر یہ ہے،ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونقوہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہےشاعر کو پہلے سے یہ بات معلوم تھی کہ دوست کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے اور بگڑی ہوئی طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم تھا کہ دوست کو جب تک عاشق اپنی حالت زاراور اس کی جدائی کا صدمہ نہ جتائے، دوست عاشق کی محبت اور عشق کا پورا پورا یقین نہیں کر سکتا۔ یہ بھی معلوم تھا کہ بعضی خوشی سے دفعتاً ایسی بشاشت ہو سکتی ہے کہ رنج وغم اور تکلیف کا مطلق اثر چہرے پر باقی نہیں رہتا۔ اب تخیل نے ان تمام معلومات میں اپنا تصرف کرکے ایک نئی ترتیب پیدا کر دی۔ یعنی یہ کہ عاشق کسی طرح اپنی جدائی کے زمانے کی تکلیفیں معشوق پر ظاہر نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ جب تکلیف کا وقت ہوتا ہے اس وقت معشوق نہیں ہوتا اور جب معشوق ہوتا ہے اس وقت تکلیف نہیں رہتی۔ اس مثال میں بھی تخیل کا عمل معناً اور لفظاً دونوں طرح بدرجہ غایت لطیف اور حیرت انگیز واقع ہوا ہے۔ جیسا کہ صاف ذوق سلیم پر ظاہر ہے۔اگرچہ قوت متخیلہ اس حالت میں بھی جبکہ شاعری کی معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اور محدود ہو اسی معمولی ذخیرہ سے کچھ نہ کچھ نتائج نکال سکتی ہے۔ لیکن شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ نسخہ کائنات اور اس میں سے خاص کر نسخہ فطرت انسانی کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جائے۔ انسان کی مختلف حالتیں (جو زندگی میں اس کو پیش آتی ہیں) ان کوتعمق کی نگاہ سے دیکھنا، جو امور مشاہدے میں آئیں ان کے ترتیب دینے کی عادت ڈالنی، کائنات میں گہری نظر سے وہ خواص اور کیفیات مشاہدہ کرنے جو عام آنکھوں سے مخفی ہوں اور فکر میں مشق وممارست سے یہ طاقت پیدا کرنی کہ وہ مختلف چیزوں سے متحد اور متحدچیزوں سے مختلف خاصیتیں فوراً اخذ کر سکے اور اس سرمایہ کو اپنی یاد کے خزانے میں محفوظ رکھے۔ مختلف چیزوں سے متحد خاصیت اخذ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے مرزا غالب کہتے ہیں،بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفلجو تیری بزم سے نکلا وہ پریشاں نکلااور متحد اشیاء سے مختلف خاصیتیں استنباط کرنے کی مثال میر ممنون کا یہ شعر ہے،تفاوت قامت یارو قیامت میں ہے یہ ممنوںوہی فتنہ ہے لیکن یاں ذرا سانچے میں ڈھلتاہےیعنی قامت معشوق اور قیامت فتنہ ہونے میں تو دونوں متحدہیں مگر فرق یہ ہے کہ فتنہ قیامت سانچے میں ڈھلا ہوا نہیں ہے اور قامت معشوق سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔غرض یہ تمام باتیں جو اوپر ذکر کی گئیں، ایسی ضروری ہیں کہ کوئی شاعران سے استغنا کاد عویٰ نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ اگر قوت متخیلہ کو اپنی اصلی غذا (جس سے وہ نشو ونماپاتی ہے) نہیں پہنچتی تو اس کی قوت آدھی بلکہ آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔قوت متخیلہ کوئی شئے بغیر مادے کے پیدا نہیں کر سکتی۔ بلکہ جو مصالحہ اس کو خارج سے ملتا ہے اس میں وہ اپنا تصرف کرکے ایک نئی شکل تراش کر لیتی ہے۔ جتنے نامور شاعر دنیا میں گزرے ہیں وہ کائنات یا فطرت انسانیت کے مطالعے میں ضرور مستغرق رہے ہیں۔ جب رفتہ رفتہ طبیعت اس مطالعے کی عادی ہو جاتی ہے تو ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے کا ملکہ ہو جاتا ہے اور مشاہدوں کے خزانے گنجینہ خیال میں خود بخود جمع ہونے لگتے ہیں۔سروالٹر سکوٹ جو انگلستان میں ایک مشہور شاعر ہے اس کی نسبت لکھا ہے کہ اس کی خاص خاص نظموں میں دو خاصیتیں ایسی ہیں جن کوسب نے تسلیم کیا ہے۔ ایک اصلیت سے تجاوز نہ کرنا دوسرے ایک ایک مطلب کو نئے اسلوب سے ادا کرنا۔ جہاں کہیں اس نے کسی باغ یا جنگل یا پہاڑ کی فضا کا بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع کی روح میں جو جو خاصیتیں تھیں سروالٹر نے وہ سب انتخاب کر لی تھیں۔ سروالٹر کی نظم پڑھ کر آنکھوں کے سامنے بالکل وہی سماں بندھ جاتا ہے جو پہلے خود اس موقع کے دیکھنے سے معلوم ہوا تھا اور اب دھیان سے اتر گیا تھا۔ ظاہراً اس نے ان بیانات میں قوت متخیلہ پر ایسا بھروسہ نہ کیا کہ اصلیت کو چھوڑ کر محض تخیل ہی پر قناعت کر لیتا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ روکبی کا قصہ لکھ رہا تھا، ایک شخص نے اس کو دیکھا کہ پاکٹ بک میں چھوٹے چھوٹے خودرو پھول پتے اور میوے جو وہاں اگ رہے تھے ان کو نوٹ کر رہا تھا۔ ایک دوست نے اس سے کہا کہ اس دردسر سے کیا فائدہ؟ کیا عام پھول کافی نہ تھے جو چھوٹے چھوٹے پھولوں کو ملاحظہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ سروالٹر نے کہا، ’’تمام کائنات میں دو چیزیں بھی ایسی نہیں جو بالکل یکساں ہوں۔‘‘ پس جوشخص محض اپنے تخیل پربھروسہ کرکے مذکورہ بالا مطالعے سے چشم پوشی یا غفلت کرےگا اس کوبہت جلد معلوم ہوجائےگا کہ اس کے دماغ میں چند معمولی تشبیہوں یا تمثیلوں کا ایک محدود ذخیرہ ہے جس کو برتتے برتتے خود اسی کا جی اکتا جائےگا اور سامعین کوسنتے سنتے نفرت ہو جائےگی۔ جو شخض شعر کی ترتیب میں اصلیت کو ہاتھ سے نہیں دیتا اور محض ہوا پر اپنی بنیاد کو نہیں رکھتا وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ایک مطلوب کوجتنے اسلوبوں میں چاہے بیان کرے۔ اس کا تخیل اسی قدر وسیع ہوگا جس قدر کہ اس کا مطالعہ وسیع ہے۔کائنات کے مطالعے کی عادت ڈالنے کے بعد دوسرا نہایت ضروری مطالعہ اور تفحص ان الفاظ کا ہے جن کے ذریعہ سے اپنے خیالات مخاطب کے روبرو پیش کرتے ہیں۔ یہ دوسرا مطالعہ بھی ویسا ہی ضروری اور اہم ہے، جیسا کہ پہلا۔ شعر کی ترتیب کے وقت اول متناسب الفاظ کا انتخاب کرنا اور پھران کو ایسے طور پر ترتیب دینا کہ شعر سے معنی مقصود کے سمجھنے میں مخاطب کو کچھ تردد باقی نہ رہے اور خیال کی تصویر ہو بہ ہو آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور باوجود اس کے کہ اس ترتیب میں ایک جادو مخفی ہو جو مخاطب کو مسخر کر لے۔ اس مرحلے کا طے کرنا جس قدر دشوار ہے اسی قدر ضروری بھی ہے کیونکہ اگر شعر میں یہ بات نہیں ہے تو اس کے کہنے سے نہ کہنا بہتر ہے۔ اگرچہ شاعری کی متخیلہ کو الفاظ کی ترتیب میں ویسا ہی دخل ہے جیسا کہ خیالات کی ترتیب میں لیکن اگر شاعر زبان کے ضروری حصے پر حاوی نہیں ہے اور ترتیب شعر کے وقت صبرو استقلال کے ساتھ ا لفاظ کا تتبع اور تفحص نہیں کرت اتو محض قوت متخیلہ کچھ کام نہیں آ سکتی۔جن لوگوں کو یہ قدرت ہوتی ہے کہ شعر کے ذریعہ سے ہم جنسوں کے دل میں اثر پیدا کر سکتے ہیں، ان کو ایک ایک لفظ کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ فلاں لفظ جمہور کے جذبات پر کیا اثر رکھتا ہے اور اس کے اختیار کرنے یا ترک کرنے سے کیا خاصیت بیان میں پیدا ہوتی ہے۔ نظم الفاظ میں اگر بال برابر بھی کمی رہ جاتی ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے شعر میں کون سی بات کی کسر ہے۔ جس طرح ناقص سانچے میں ڈھلی ہوئی چیز فوراً چغلی کھاتی ہے، اسی طرح اگر ان کے شعر میں تاؤ بھاؤ بھی فرق رہ جائے معاً ان کی نظرمیں کھٹک جاتاہے۔ اگرچہ وزن اور قافیے کی قید ناقص اور کامل دونوں قسم کے شاعروں کو اکثر اوقات ایسے لفظ کے استعمال پر مجبور کرتی ہے جو خیال کو بہ خوبی ادا کرنے سے قاصر ہے مگر فرق صرف اس قدر ہے کہ ناقص شاعر تھوڑی سی جستجو کے بعداسی لفظ پر قناعت کر لیتا ہے اور کامل جب تک کہ زبان کے تمام کنویں جھانک نہیں لیتا تب تک اس پر قانع نہیں ہوتا۔شاعر کوجب تک الفاظ پر کامل حکومت اور ان کی تلاش و جستجو میں نہایت صبر و استقلال حاصل نہ ہو ممکن نہیں کہ وہ جمہور کے دلوں پر بااستقلال حکومت کر سکے۔ ایک حکیم شاعر کا قول ہے، شعر شاعر کے دماغ سے ہتھیار بند نہیں کو دتا بلکہ خیال کی ابتدائی ناہمواری سے لے کر انتہا کی تنقیح و تہذیب تک بہت سے مرحلے طے کرنے ہوتے ہیں جو سامعین کو شاید محسوس نہ ہوں لیکن شاعر کو ضرور پیش آتے ہیں۔اس بحث کے متعلق چند امور ہیں، جن کو فکر شعر کے وقت ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے۔ اول خیالات کو صبر و تحمل کے ساتھ الفا ظ کا لباس پہنانا۔ پھر ان کو جانچنا اور تولنا اور ادائے معنی کے لحاظ سے ان میں جو قصور رہ جائے اس کو رفع کرنا، الفاظ کو ایسی ترتیب سے منتظم کرنا کہ صورت اگرچہ نظم سے ممیز ہو مگر معنی اس قدر پورے ادا کرے جیسے کہ نثر میں ادا ہو سکتے۔ شاعر بشرطیکہ شاعر ہو اول تووہ ان باتوں کا لحاظ وقت پرضرور کرتا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے بالفعل اس کو زیادہ غور کرنے کا موقع نہیں ملتا تو پھر جب وہ اپنے کلام کو اطمینان کے وقت دیکھتا ہے، اس کو ضرور کاٹ چھانٹ کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے بڑے شاعروں کا کلام مختلف نسخوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ پایا جاتا ہے۔اب تخیل کی نسبت اتناجان لینا اور ضرور ہے کہ اس کو جہاں تک ممکن ہو، اعتدال پر رکھنا اور طبیعت پرغالب نہ ہونے دینا چاہئے۔ کیونکہ جب اس کا غلبہ طبیعت پر زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ قوت ممیزہ سے جو کہ اس کی روک ٹوک کرنے والی ہے، باہر ہو جاتا ہے تو اس کی یہ حالت شاعر کے حق میں زیادہ خطرناک ہے۔ قوت متخیلہ ہمیشہ خلاقی اور بلند پروازی کی طرف مائل رہتی ہے مگر قوت ممیزہ اس کی پرواز کو محدود کرتی ہے۔ اس کی خلاقی کی مزاحم ہوتی ہے اور اس کو ایک قدم بے قاعدہ نہیں چلنے دیتی۔ قوت متخیلہ کیسی ہی دلیر اور بلند پرواز ہو، مگر جب تک وہ قوت ممیزہ کی محکوم ہے، شاعر کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ بلکہ جس قدر اس کی پرواز بلند ہوگی اسی قدرشاعری اعلیٰ درجے کو پہنچےگی۔دنیا میں جس قدر بڑے بڑے شاعر ہوئے ہیں ان میں قوت متخیلہ کی بلند پروازی اورقوت ممیزہ کی حکومت دونوں ساتھ ساتھ پائی جاتی ہیں۔ ان کا تخیل نہ خیالات میں بے اعتدالی کرنے پاتا ہے نہ الفاظ میں کج روی۔ مگر دوسری صورت میں جبکہ تخیل قوت ممیزہ پرغالب آ جائے، شاعر کے لئے اس کی پرواز ایسی ہی خطرناک ہے جیسے سوار کے لئے نہایت چالاک گھوڑا جس کے منہ میں لگام نہ ہو۔ ہزاروں ہونہار شاعروں کو اس قوت کی آزادی اور مطلق العنانی نے گمراہ کر دیا ہے اور بعض جو گمراہ ہوکر راہ راست پرآئے ہیں وہ اس وقت تک نہیں آئے جب تک کہ قوت ممیزہ کو اس پر حاکم نہیں بنایا۔ قوت متخیلہ کی دلیری اوربلند پروازی زیادہ تر اس وقت بڑھتی ہے جب شاعر کے ذہن میں اس کو اپنی غذایعنی حقائق و واقعات کا ذخیرہ جس میں وہ تصرف کرے، نہیں ملتا۔جس طرح انسان بھوک کی شدت میں جب معمولی غذا نہیں پاتا تو مجبور ہوکر بنا سپتی سے اپنا دوزخ بھر کر صحت کو خراب کر لیتا اور اکثر ہلاک ہو جاتا ہے، اسی طرح جب قوت متخیلہ کو اس کی معتاد غذا نہیں ملتی تووہ غیر معتاد غذا پر ہاتھ ڈالتی ہے۔ خیالات دور ازکار (جن میں اصلیت کانام و نشان تک نہیں ہوتا) تراش کر بہ تکلف ان کو شعر کا لباس پہناتی ہے اور قوت ممیزہ کو اپنے کلام میں خلل انداز سمجھ کر ا س کی اطاعت سے باہر ہو جاتی ہے اور شاعر کو ’’مہمل گو‘‘ اور ’’کوہ کندن و کاہ بر آور دن‘‘ کا مصداق بنا دیتی ہے۔شاعر کے لئے نیچر کا خزانہ ہر وقت کھلا ہوا ہے اور قوت متخیلہ کے لئے اس کی اصلی غذا کی کچھ کمی نہیں ہے۔ پس بجائے اس کے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر کاغذ کے پھول پنکھڑیاں بنائے، اس کو چاہئے کہ پہاڑوں اور جنگلوں میں اور خود اپنی ذات میں قدرت حق کا تماشا دیکھے، جہاں بھانت بھانت کے اصلی پھول اور پنکھڑیوں کے لازوال خزانے موجود ہیں۔ ورنہ اس کی نسبت کہا جائےگا،جانتا قدرت کو ہے اک کھیل توکھیل قدرت کے تجھے دکھائیں کیا