کم نہ تھی صحرا سے کچھ بھی خانہ ویرانی مری
کم نہ تھی صحرا سے کچھ بھی خانہ ویرانی مری
میں نکل آیا کہاں اے وائے نادانی مری
کیا بناؤں میں کسی کو رہبر ملک عدم
اے خضر یہ سر زمیں ہے جانی پہچانی مری
جان و دل پر جتنے صدمے ہیں اسی کے دم سے ہیں
زندگی ہے فی الحقیقت دشمن جانی مری
ابتدائے عشق گیسو میں نہ تھیں یہ الجھنیں
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی آخر پریشانی مری
دشت ہستی میں رواں ہوں مدعا کچھ بھی نہیں
کب ہوئی محتاج لیلےٰ قیس سامانی مری
اور تو واقف نہیں کوئی دیار عشق میں
ہے جنوں شیدا مرا وحشت ہے دیوانی مری
باغ دنیا میں یوں ہی رو ہنس کے کاٹوں چار دن
زندگی ہے شبنم و گل کی طرح فانی مری
بعد ترک آرزو بیٹھا ہوں کیسا مطمئن
ہو گئی آساں ہر اک مشکل بہ آسانی مری
ہاں خدا لگتی ذرا کہہ دے تو اے حسن صنم
عاشقی اوروں کی اچھی یا کہ حیرانی مری
لخت دل کھانے کو ہے خون جگر پینے کو ہے
میزبان دہر نے کی خوب مہمانی مری
نغمہ زن صحرا میں ہو جس طرح کوئی عندلیب
یوں ہے اے محرومؔ سرحد میں غزل خوانی مری