کل رات بہت زور تھا ساحل کی ہوا میں

کل رات بہت زور تھا ساحل کی ہوا میں
کچھ اور ابھر آئیں سمندر سے چٹانیں


اک فصل اگی جوں ہی زمینوں پہ سروں کی
ترکش سے گرے تیر فصیلوں سے کمانیں


محسوس ہوا ایسے کہ چپ چاپ ہیں سب لوگ
جب غور کیا ہم نے تو خالی تھیں نیامیں


تم حبس کے موسم کو ذرا اور بڑھا لو
بے سمت نہ ہو جائیں پرندوں کی اڑانیں


کیوں ہونٹ پہ دریوزہ گر صوت و صدا ہیں
جو آہٹیں بے نام ہوئیں دست دعا میں