کل چودھویں کی رات تھی آباد تھا کمرا ترا
کل چودھویں کی رات تھی آباد تھا کمرا ترا
ہوتی رہی دن تاک دن بجتا رہا طبلہ ترا
شوہر شناسا آشنا ہمسایہ عاشق نامہ بر
حاضر تھا تیری بزم میں ہر چاہنے والا ترا
عاشق ہیں جتنے دیدہ ور تو سب کا منظور نظر
نتھا ترا فجا ترا ایرا ترا غیرا ترا
اک شخص آیا بزم میں جیسے سپاہی رزم میں
کچھ نے کہا یہ باپ ہے کچھ نے کہا بیٹا ترا
میں بھی تھا حاضر بزم میں جب تو نے دیکھا ہی نہیں
میں بھی اٹھا کر چل دیا بالکل نیا جوتا ترا
یہ مال اک ڈاکے میں کل دونوں نے مل کر لوٹا ہے
انصاف اب یہ کہتا ہے آدھا مرا آدھا ترا