کیسی کیسی راہ میں دیواریں کرتے ہیں حائل لوگ
کیسی کیسی راہ میں دیواریں کرتے ہیں حائل لوگ
پھر بھی منزل پا لیتے ہیں ہم جیسے زندہ دل لوگ
وہ دیکھو ساگر گرجا طوفان اٹھا نیا ڈوبی
اور تماشہ دیکھ رہے ہیں بیٹھے ساحل ساحل لوگ
بزم سجا کر بھینٹ کیے ہیں ہمدردی کے چند الفاظ
میرا دکھڑا بانٹ رہے ہیں میرے غم میں شامل لوگ
بستی بستی گھوم رہے ہیں بھیڑ بھرے چوراہوں پر
اجلے اجلے پہناؤں میں چہرے بدلے قاتل لوگ
ٹوٹ چلیں گی سب آشائیں تب ہی جیون راس آئے گا
کچھ دن اور کسیں گے ہم پر طعنے محفل محفل لوگ
کتنی امیدوں کی شمعیں جلتے ہی بجھ جاتی ہیں
اب بھی ان چاہے چھاتی پر دھر ہی دیتے ہیں سل لوگ
برف کے آئینہ خانوں میں شعلوں کا سنگار کریں گے
ایوانوں میں عیش منا کر تڑپیں گے پتھر دل لوگ