کیسے رکھیں گے سر پہ کسی کا ادھار ہم

کیسے رکھیں گے سر پہ کسی کا ادھار ہم
قرض وفا میں کرتے ہیں سر کا شمار ہم


افسوس اسی چمن میں ہوئے بے وقار ہم
جس کو کہ چاہتے رہے دیوانہ وار ہم


الفاظ مدح خواں تھے قلم تھے بکے ہوئے
کیسے تراش لیتے کوئی شاہ کار ہم


ملنا ہمارا خاک میں ضائع نہ جائے گا
دے جائیں گے چمن کو شعور بہار ہم


کوئی سپر بچا نہ سکے گی حضور کو
تلوار سے سخن کی کریں گے جو وار ہم


اے زندگی نہ ہم سے چھپا راز زندگی
ہر سانس میں ہیں تیرے ہی آئینہ دار ہم


ڈالیں اب ایک اور روایت کی داغ بیل
دشمن پہ اے نیازؔ کریں اعتبار ہم