کیسے کیسے بھید چھپے ہیں پیار بھرے اقرار کے پیچھے
کیسے کیسے بھید چھپے ہیں پیار بھرے اقرار کے پیچھے
کوئی پتھر تان رہا ہے شیشے کی دیوار کے پیچھے
دل میں آگ لگا جاتا ہے یہ بن یار بہار کا موسم
ایک تپش بھی ہوتی ہے اس ٹھنڈی سی پھوار کے پیچھے
سوچ ابھی سے پھر کیا ہوگا بیت گئی جب رات ملن کی
ایک اداسی رہ جائے گی پائل کی جھنکار کے پیچھے
کون لگائے کھوج کسی کا خود غرضی کے اس جنگل میں
ملتا ہے انسان یہاں بھی لیکن ایک ہزار کے پیچھے
ننگی ہو کر ناچ رہی ہے بھوکی روحوں کی مجبوری
جھانک سکو تو جھانک کے دیکھو جسموں کے انبار کے پیچھے
یہ حاکم بھی دوست ہے میرا یہ ناصح بھی میرا ہمدم
کتنے ہی غم خوار پڑے ہیں ایک ترے بیمار کے پیچھے
تیرا تو اک دل ٹوٹا ہے یار قتیلؔ اداس نہ ہو تو
لوگ تو جاں بھی دے دیتے ہیں پیارے اپنے یار کے پیچھے