کہو کہ طور پہ جلتا رہے چراغ ابھی

کہو کہ طور پہ جلتا رہے چراغ ابھی
مجھے شراب سے حاصل نہیں فراغ ابھی


ابھی تو بادہ پرستی مری شباب پہ ہے
روش روش ہے مرے دم سے باغ باغ ابھی


جو صبح وصل ترے گیسوؤں سے ٹپکی تھی
مہک رہا ہے اسی باغ سے دماغ ابھی


قیام حشر ذرا اور ملتوی کر دو
کہ میکدے میں کھنکتے ہیں کچھ ایاغ ابھی


ابھی جہنم دنیا میں اور جلنے دو
مری جبین بغاوت ہے داغ داغ ابھی


نہیں ہے فرصت‌ توبہ شراب سے مظہرؔ
کہ فیض‌ یار سے لبریز ہے ایاغ ابھی