کہکشاں کے تناظر میں ہم کیا ہمارا ستارہ ہے کیا
کہکشاں کے تناظر میں ہم کیا ہمارا ستارہ ہے کیا
ان گنت آفتابوں کی اقلیم میں اک شرارہ ہے کیا
کون سمجھے زباں برگ و اشجار کی دشت و کہسار کی
کون جانے کہ اس بے کراں خامشی میں اشارہ ہے کیا
ہم محبت کو اک منصب عاشقانہ سمجھتے رہے
یہ نہ سوچا محبت کی سوداگری میں خسارہ ہے کیا
یہ طلسم تماشا ہے سارا جہاں اک طلسم نظر
روشنی کا سمندر ہیں آنکھیں مگر آشکارہ ہے کیا
وہ ہے بے مثل اس کو اسی کے حوالے سے سمجھا کرو
اس کے ادراک میں دخل تشبیہ کیا استعارہ ہے کیا
ایک مٹی کے گھر میں جیے عمر بھر اور مٹی ہوئے
کل جہاں یوں تو اکبرؔ ہمارے لیے پر ہمارا ہے کیا