کہیں تو آ کے رکے بھی مسافری میری

کہیں تو آ کے رکے بھی مسافری میری
کہ مجھ کو ڈھونڈھتی رہتی ہے بے گھری میری


میں جس کے واسطے خود کو بھلائے بیٹھا ہوں
اسی کو بھول نہ جائے یہ سادگی میری


کبھی بھی کھل کے کسی سے کلام کر نہ سکا
تمام عمر فضا ہی تھی اجنبی میری


ہے روشنی کا حوالہ پرایا دیس مگر
ترس رہی ہے اجالوں کو زندگی میری


بس اک تمنا سی رہتی ہے جو ستاتی ہے
یہی کہ تجھ کو پسند آئے شاعری میری


وفا کی راہ کو اس طور سے کیا روشن
کہ یاد آئے گی دنیا کو عاشقی میری