کہیں سے چاند کہیں سے قطب نما نکلا

کہیں سے چاند کہیں سے قطب نما نکلا
قدم جو گھر سے نکالا تو راستہ نکلا


جلایا دھوپ میں خود کو تو ایک سایہ سا
ہمارے جسم کی دیوار سے لگا نکلا


تمام عمر بھٹکتا رہا میں تیرے لئے
ترا وجود ہی ہستی کا مدعا نکلا


تمہاری آنکھوں میں صدیوں کی پیاس ڈوب گئی
ہماری روح سے احساس کربلا نکلا


گریز کرنے لگا ہے ترے خیال سے بھی
ہمارا دل بھی تری طرح بے وفا نکلا


مرا ہی نام کبھی میرؔ تھا غزل والو
نئے سفر میں بھی میرا ہی نقش پا نکلا


چراغ گھر میں جلا چھوڑ کر گئے تھے شکیلؔ
سفر سے لوٹے تو سب کچھ بجھا بجھا نکلا