کہیں پہ دھوپ کہیں پر ہیں سائبان بہت
کہیں پہ دھوپ کہیں پر ہیں سائبان بہت
قدم قدم پہ ہیں دنیا میں امتحان بہت
مجھے سپرد تو لوگوں نے کر دیا اس کے
مگر عزیز ہے قاتل کو میری جان بہت
اگر یہ چاہے تو اک پل میں انقلاب آئے
ہماری قوم میں ایسے ہیں نوجوان بہت
مگر دراڑ نہ آنے دی میں نے رشتے میں
بھرے ہیں لوگوں نے ویسے تو میرے کان بہت
یہ دکھ ہے اس کو نہ شبنم فشانیاں سمجھو
زمیں کے حال پہ رویا ہے آسمان بہت