کہیں درہم کہیں ڈالر کہیں دینار کا جھگڑا
کہیں درہم کہیں ڈالر کہیں دینار کا جھگڑا
کہیں لہنگا کہیں چولی کہیں شلوار کا جھگڑا
وطن میں آج کل اس ذات سے اس ذات کو شکوہ
لگا ہونے کہیں اس پار سے اس پار کا جھگڑا
وہ مسجد ہو کہ مندر ہو ادب ہو یا سیاست ہو
وہی ہے جنگ کرسی کی وہی دستار کا جھگڑا
زمانے کی روش سے کر لیا ہے سب نے سمجھوتا
کوئی معنی نہیں رکھتا یہاں کردار کا جھگڑا
کسی کی ٹانگ ٹوٹے یا کسی احمق کا سر پھوٹے
اگر ہونے لگے ہوشیار سے ہوشیار کا جھگڑا
یہی انساں کھلونوں کے لیے بچپن میں لڑتا ہے
بڑے ہونے پہ کرتا ہے در و دیوار کا جھگڑا
یہ دنیائے محبت بھی انوکھی چیز ہے صاحب
کبھی انکار پر نالش کبھی اقرار کا جھگڑا
چھڑا جب ان کے گھر جھگڑا تو ان کی عقل چکرائی
جو سلجھاتے رہے تھے عمر بھر بازار کا جھگڑا
امیروں کی لڑائی میں کوئی لذت نہیں ہوتی
مزہ آتا ہے جب ہو مفلس و نادار کا جھگڑا
اگر جاہل بنے عالم تو کر تائید تو اس کی
ظفرؔ اچھا نہیں ہوتا ہے یہ بے کار کا جھگڑا