کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے

کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے
تجھے بے وفا کہوں میں وہ مقام آ نہ جائے


ذرا زلف کو سنبھالو مرا دل دھڑک رہا ہے
کوئی اور طائر دل تہہ دام آ نہ جائے


جسے سن کے ٹوٹ جائے مرا آرزو بھرا دل
تری انجمن سے مجھ کو وہ پیام آ نہ جائے


وہ جو منزلوں پہ لا کر کسی ہم سفر کو لوٹیں
انہیں رہزنوں میں تیرا کہیں نام آ نہ جائے


اسی فکر میں ہیں غلطاں یہ نظام زر کے بندے
جو تمام زندگی ہے وہ نظام آ نہ جائے


یہ مہ و نجوم ہنس لیں مرے آنسوؤں پہ جالبؔ
مرا ماہتاب جب تک لب بام آ نہ جائے