کہانی ایک ملک کی
راج محل کے دروازے پر
آکے رکی اک کار
پہلے نکلا بھدا، بے ڈھب، بودا،
میل کچل کا تودا
حقہ تھامے اک میراثی،
عمر اس کی کوئی اسی بیاسی
پیچھے اس کا نائب، تمباکو بردار،
باہر رینگے اس کے بعد قطار ، قطار
عنبریار
نمبردار
ساتھ سب ان کے دم چھلے
ایم ایل اے
راج محل کے اندر اک اک رتناسن پر
کوڑھی جسم اور نوری جامے
روگی ذہن اور گردوں پیچ عمامے
جہل بھرے علامے
ماجھے، گامے،
بیٹھے ہیں اپنی مٹھی میں تھامے
ہم مظلوموں کی تقدیروں کے ہنگامے
جِیبھ پہ شہد اور جیب میں چاقو
نسل ہلاکو،
راج محل کے باہر ، سوچ میں ڈوبے شہر اور گاؤں
ہَل کی اَنی، فولاد کے پنجے،
گھومتے پہیے، کڑیل باہیں،
کتنے لوگ کہ جن کی روحوں کو سندیسے بھیجیں
سکھ کی سیجیں
لیکن جو ہر راحت کو ٹھکرائیں
آگ پئیں اور پھول کھلائیں
مجید امجد