کہاں سے تم آئے ہو بھائی
سفیدے کے سنبل کے
اور پوپلر کے چھریرے شجر
مری جوہ میں آئے تھے جب
مری سبز دھرتی کا اک بھی پرندہ
انہیں دیکھنے ان کی شاخوں میں
آرام کرنے کو تیار ہرگز نہیں تھا
کبھی کوئی پھولے پروں والی
اک پھول سی فاختہ
ان کی شاخوں کی جانب امنڈتی
تو بو سے پریشان ہو کر
فلک کی طرف تیر بن کر
کچھ اس طور جاتی
کہ جیسے وہ واپس زمیں پر نہیں آئے گی
اور اب حال یہ ہے
پھلا ہی کے کیکر کے بیری کے سب پیڑ
ان آنے والوں سے گھبرا کے
جانے کہاں چل دئے ہیں
گھنے سبز شیشم کے چھتنار مرجھا گئے ہیں
اگر کوئی برگد یا پیپل کا
اک آدھ ہیکل
کسی کونے کھدرے میں
آنکھوں کو میچے
پروں کو سمیٹے کھڑا ہے
تو کیا ہے
اسے کب کسی آنے والے
چلے جانے والے سے کوئی تعلق رہا ہے
جو یوں ہے تو آؤ چلیں
آنے والوں سے چل کر ملیں
ان سے پوچھیں
کہاں سے تم آئے ہو بھائی
ارادہ ہے کب تک یہاں ٹھہرنے کا