کہاں نصیب زمرد کو سرخ روئی یہ (ردیف .. ی)

کہاں نصیب زمرد کو سرخ روئی یہ
سمجھ میں لعل کی اب تک حنا نہیں آئی


خجل ہے آنکھوں سے نرگس گلاب گالوں سے
وہ کون پھول ہے جس کو حیا نہیں آئی


امڈ رہا ہے پڑا دل میں شوق زلفوں کا
یہ جھوم جھوم کے کالی گھٹا نہیں آئی


ہو جس سے آگے وہ بت ہم سے ہم سخن واعظ
کہیں حدیث میں ایسی دعا نہیں آئی


زباں پہ اس کی ہے ہر دم مری بلا آئے
بلا بھی آئے تو سمجھو بلا نہیں آئی


شب فراق کا چھایا ہوا ہے رعب ایسا
بلا بلا کے تھکے ہم قضا نہیں آئی


نظر ہے یار کی شہبازؔ کیمیا تاثیر
پر اپنے حصے میں یہ کیمیا نہیں آئی