کہاں ہے ایسی زمیں جس پہ آسمان نہ ہو
کہاں ہے ایسی زمیں جس پہ آسمان نہ ہو
وہ کیسا شہر جہاں ایک بھی مکان نہ ہو
ہمارے دشت نے اتنا تو انتظام رکھا
سروں پہ دھوپ رہے کوئی سائبان نہ ہو
دل و دماغ کی الجھن میں یہ کہاں ممکن
کہ ذہن و دل تو تھکیں روح کو تھکان نہ ہو
خود اپنی پیٹھ تو ہم تھپتھپا نہیں سکتے
ہمیں ہے خوف کہ بے جا کوئی گمان نہ ہو
میں خواب دیکھ رہا ہوں اس احتیاط کے ساتھ
عتاب صبح سے سپنا لہو لہان نہ ہو
زمیں سے دور چلے آئے ہیں مگر ببیاکؔ
دعا کرو کہ یہیں ختم یہ اڑان نہ ہو