کبھی صورت نہیں ملتی کبھی سیرت نہیں ملتی
کبھی صورت نہیں ملتی کبھی سیرت نہیں ملتی
یہاں انسان سے انسان کی فطرت نہیں ملتی
نصیبہ نے ہی بخشا ہے ہر اک کو اس کے حصے کا
یہاں اک باپ کے بیٹوں کی بھی قسمت نہیں ملتی
کرم مولا کرے تو آدمی بے لوث ہوتا ہے
نہ ہو اس کی اگر رحمت تو یہ طاقت نہیں ملتی
وہ دنیا میں بھی رہتے ہیں تو ہو کر خود سے بیگانے
جنہیں اپنے گناہوں سے کبھی فرصت نہیں ملتی
اثر اک سا ہے ہم دونوں پہ واعظ اس موئی مے کا
وگرنہ تیری میری اک بھی تو عادت نہیں ملتی
کہاں آدم نکلتا خلد سے اتنا تو سوچو تم
اگر حوا کی جانب سے اسے دعوت نہیں ملتی
جو تیرے در پہ اے مولا نہ عازمؔ یوں دعا کرتا
اسے جنت نہیں ملتی تجھے شہرت نہیں ملتی