کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں
کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں
نہ جانے کون ہے جس کی نگہبانی میں رہتے ہیں
زمیں سے آسماں تک اپنے ہونے کا تماشا ہے
یہ سارے سلسلے اک لمحۂ فانی میں رہتے ہیں
سویرا ہوتے ہوتے روز آ جاتے ہیں ساحل پر
سفینے رات بھر دریا کی طغیانی میں رہتے ہیں
پتا آنکھیں کو ملتا ہے یہیں سب جانے والوں کا
سبھی اس آئینہ خانے کی حیرانی میں رہتے ہیں
ادھر ہم ہیں کہ ہر کار جہاں دشوار ہے ہم کو
ادھر کچھ لوگ ہر مشکل کی آسانی میں رہتے ہیں
کسے یہ نیلی پیلی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں
عجب کیا ہے جو ہم بچوں کی نادانی میں رہتے ہیں
یہی بے چہرہ و بے نام گھر اپنا ٹھکانہ ہے
ہم اک بھولے ہوئے منظر کی ویرانی میں رہتے ہیں