کبھی پڑھو تو مجھے حرف معتبر کی طرح
کبھی پڑھو تو مجھے حرف معتبر کی طرح
یہ کیا کہ پڑھتے ہو فرسودہ سی خبر کی طرح
قلم تو کرتے ہو سر کو مرے مگر سن لو
میں ریگ زار وفا میں ہوں ایک شجر کی طرح
اداسی کھول کے بال اپنا سو رہی ہے یہاں
کہ جیسے شہر میں ہر گھر ہے میرے گھر کی طرح
ہمارے ذوق پرستش کو تم دعائیں دو
چمک رہے ہیں یہ پتھر جو اب گہر کی طرح
مشام جاں میں ابھی تک ہے اس بدن کی باس
کھلا تھا رات جو اک غنچہ سحر کی طرح
ہر ایک سنگ پتہ پوچھتا ہے گھر کا مرے
نہیں ہے کیا کوئی سر اور میرے سر کی طرح
نواح جاں میں اجالوں کا رقص ہے شبلیؔ
یہ کون آیا دبے پاؤں یوں سحر کی طرح