کبھی نمایاں کبھی تہہ نشیں بھی رہتے ہیں

کبھی نمایاں کبھی تہہ نشیں بھی رہتے ہیں
یہیں پہ رہتے ہیں ہم اور نہیں بھی رہتے ہیں


بھٹکتی نظروں میں ہیں مرتکز نگاہیں بھی
گماں کدوں میں کچھ اہل یقیں بھی رہتے ہیں


اگرچہ ہم کو مقدم ہے راہ خدمت خلق
جو باز آئے تو اپنے تئیں بھی رہتے ہیں


بجا شواہد و منطق قبول بحث و دلیل
پہ ہم خطائے نظر کے قریں بھی رہتے ہیں


حجاب فکر و نظر کے اٹھا کے دیکھو تو
ہمارے فن میں کئی نازنیں بھی رہتے ہیں


شباہتیں سی غبار حد نگاہ میں ہیں
پس فلک کہیں اہل زمیں بھی رہتے ہیں


تم اپنے ٹھور ٹھکانوں کو یاد رکھو سازؔ
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو کہیں بھی رہتے ہیں