کبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں
کبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں
کیسی دیوار اٹھاتے ہیں گرا دیتے ہیں
آؤ دو چار قدم چل کے بھی دیکھیں یارو
ہم سفر اپنے کہاں ہم کو دغا دیتے ہیں
جانے کیا سوچ کے اے دوست یہ ارباب چمن
زہر پاشی سے وہ پودوں کو جلا دیتے ہیں
یہ گزر گاہ کے پتھر تری ٹھوکر میں سہی
ہر قدم پر تجھے منزل کا پتا دیتے ہیں
یہ وہ دنیا ہے جہاں جھوٹ چھپانے کے لئے
لوگ سچائی کو سولی پہ چڑھا دیتے ہیں
جب بھی آتے ہیں اسے چھو کے ہوا کے جھونکے
دل کے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتے ہیں
دور و نزدیک یہ سناٹوں کے گہرے سائے
آنے والے کسی طوفاں کا پتہ دیتے ہیں