کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ہیں

کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ہیں
مرے بہے ہوئے آنسو جبیں پہ لائے ہیں


نہ سرگزشت سفر پوچھ مختصر یہ ہے
کہ اپنے نقش قدم ہم نے خود مٹائے ہیں


نظر نہ توڑ سکی آنسوؤں کی چلمن کو
وہ روز اگرچہ مرے آئینے میں آئے ہیں


اس ایک شمع سے اترے ہیں بام و در کے لباس
اس ایک لو نے بڑے پھول بن جلائے ہیں


یہ دوپہر یہ زمیں پر لپا ہوا سورج
کہیں درخت نہ دیوار و در کے سائے ہیں


کلی کلی میں ہے دھرتی کے دودھ کی خوشبو
تمام پھول اسی ایک ماں کے جائے ہیں


نظر خلاؤں پہ اور انتظار بے وعدہ
بہ ایں عمل بھی وہ آنکھوں میں جھلملائے ہیں


فسون شعر سے ہم اس مہ گریزاں کو
خلاؤں سے سر کاغذ اتار لائے ہیں


رسالہ ہاتھ سے رکھتے نہ کیوں وہ شرما کر
غزل پڑھی ہے تو ہم سامنے بھی آئے ہیں


چلے ہیں خیر سے ان کو پکارنے دانشؔ
مگر وہ یوں تو نہ آئیں گے اور نہ آئے ہیں