کبھی برسوں کا سمٹاؤ بہت اچھا لگا ہے
کبھی برسوں کا سمٹاؤ بہت اچھا لگا ہے
کبھی لمحے کا پھیلاؤ بہت اچھا لگا ہے
ستایا ایک عرصہ طبع کی جولانیوں نے
تو اب جذبوں کا ٹھہراؤ بہت اچھا لگا ہے
لگایا ہے فراموشی کا مرہم سب پہ لیکن
گئے وقتوں کا اک گھاؤ بہت اچھا لگا ہے
سکوں پرور جزیروں تک مجھے پہنچانے والا
تلاطم سا پس ناؤ بہت اچھا لگا ہے
نیا اک پینترا اپنا کھلا مجھ پر ہمیشہ
مجھے قسمت کا ہر داؤ بہت اچھا لگا ہے