کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے

کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے
جتنی بھی مشکل میں ہوں آسان کر دے گا مجھے


روبرو کر کے کبھی اپنے مہکتے سرخ ہونٹ
ایک دو پل کے لیے گلدان کر دے گا مجھے


روح پھونکے گا محبت کی مرے پیکر میں وہ
پھر وہ اپنے سامنے بے جان کر دے گا مجھے


خواہشوں کا خوں بہائے گا سر بازار شوق
اور مکمل بے سر و سامان کر دے گا مجھے


منہدم کر دے گا آ کر ساری تعمیرات دل
دیکھتے ہی دیکھتے ویران کر دے گا مجھے


ایک ناموجودگی رہ جائے گی چاروں طرف
رفتہ رفتہ اس قدر سنسان کر دے گا مجھے


یا تو مجھ سے وہ چھڑا دے گا غزل گوئی ظفرؔ
یا کسی دن صاحب دیوان کر دے گا مجھے