کب کسی کے کہے پر چلا آدمی

کب کسی کے کہے پر چلا آدمی
ظلمتوں میں بھٹکتا رہا آدمی


ہر طرح کا یہاں پر ملا آدمی
ڈھونڈنے پر ملا نہ بھلا آدمی


اس کی فہم و فراست تو دیکھو ذرا
زندگی کو سمجھتا سزا آدمی


اس سے بد تر کوئی لمحہ ہوتا نہیں
ہار جاتا ہے جب حوصلہ آدمی


آسماں پھٹ گیا اور کھسکی زمیں
جب کبھی بن گیا ہے خدا آدمی


اس کی فطرت میں پانی کی تاثیر ہے
ڈھونڈ لیتا ہے خود راستہ آدمی


سنگ بھی موم بھی خار بھی پھول بھی
آگ پانی ہوا خاک کا آدمی


مت ستا اس کی آہوں سے ڈر مت ستا
دیکھ پہلے سے ہے دل‌ جلا آدمی


زندگی کے کئی رنگ روشن ہوئے
جب کسی دل میں جا کر بسا آدمی


داغ پتھر کے بھی صاف ہو جائیں گے
آئینہ دیکھ تو لے ضیاؔ آدمی