کب دل شکست گاں سے کر عرض حال آیا
کب دل شکست گاں سے کر عرض حال آیا
ہے بے صدا وہ چینی جس میں کہ بال آیا
سینے سے میں دعا کو لایا جو شب لبوں تک
کہنے لگی اجابت کیدھر خیال آیا
کونین تک ملی تھی جس دل کی مجھ کو قیمت
قسمت کہ یک نگہ پر جا اس کو ڈال آیا
بخشش پہ دو جہاں کے آئی تھی ہمت دہر
لیکن نہ یاں زباں تک حرف سوال آیا
نازاں نہ ہو تو اس پر گر تجھ کو سنگ میں سے
گوہر نکالنے کا کسب و کمال آیا
ارباب فہم آگے وہ صاحب ہنر ہے
کینہ کسی کے دل سے جس کو نکال آیا
دیر خراب میں کل اک مست کی زباں پر
یہ شعر اس جگہ کے کیا حسب حال آیا
اعمال دیکھ تیرے مے شرم سے عرق ہے
اے محتسب تجھے بھی کچھ انفعال آیا
ملنے کا ایک دم بھی یاں ضعف دل ہے مانع
اکتا کے اٹھ گیا وہ تب میں بحال آیا
نخل حیات اپنا گلشن میں باغباں نے
بویا تو تھا ہوس کر لیکن نہ پال آیا
اکسیر ہے تو کیا ہے وہ مشت خاک سوداؔ
خاطر پہ جب کسی کی جس سے ملال آیا