کاوش بیش و کم کی بات نہ کر

کاوش بیش و کم کی بات نہ کر
چھوڑ دام و درم کی بات نہ کر


دیکھ کیا کر رہے ہیں اہل زمیں
آسماں کے ستم کی بات نہ کر


اپنی آہ و فغاں کے سوز کو دیکھ
ساز کے زیر و بم کی بات نہ کر


یوں بھی طوفان غم ہزاروں ہیں
عشق کی چشم نم کی بات نہ کر


سخت الجھی ہیں زیست کی راہیں
زلف کے پیچ و خم کی بات نہ کر


آج سود و زیاں کا سودا ہے
آج دیر و حرم کی بات نہ کر


دیکھ فرہاد کی تنک نوشی
وسعت جام جم کی بات نہ کر


ہم نے دیکھا ہے ظرف اہل کرم
ہم سے اہل کرم کی بات نہ کر


شب کی رنگینیوں کا ذکر نہ چھیڑ
حالت صبح دم کی بات نہ کر


آج مت چھیڑ غم کے افسانے
آج اے دوست غم کی بات نہ کر


چھن نہ جائے ترا تبسم لب
میرے درد و الم کی بات نہ کر