کاش

میں شہر تمنا کی تاراج نگری کے ملبے میں
لاچار و تنہا
کبھی اس کھنڈر پر کبھی اس کھنڈر تک
بھٹکتا ہوا
ڈھونڈتا پھر رہا ہوں
اپنے معصوم مسمار خوابوں کا ملبہ
تبھی اک طرف کو نظر جو گئی تو دکھائی دیا
ٹوٹے پھوٹے جلائے گئے کچھ مکاں
ایک مینار مسجد
کلش ایک مندر کا اوندھا پڑا ہے
کریدا تو ملبے کے نیچے میرا خواب
سانجھی وراثت کا ایک ساز بھی دفن تھا
مجھے یاد آیا
میرے اماں ابا نے اس ساز پر
کتنے الفت کے نغمے بجا کر سکھائے تھے ہم کو
جوانی میں
اس ساز کی نرم دل کش دھنوں پر
بڑے جوش اور حوصلے سے
ترانے محبت کے گائے تھے ہم نے
مگر پھر
روح پرور اذانوں کی آواز
اور مندروں کے بھجن
دل کشی بھول کر
اپنے غلبے کا اعلان بنتے گئے
شور اتنا بڑھا
ساز الفت کی آواز بھی دب گئی
شور سے جوش بڑھتا گیا
ہوش جاتا رہا
اور پھر یہ ہوا
آج شہر تمنا کی حالت ہے جو
جس طرف دیکھیے راکھ ہی راکھ ہے
اور میں
اپنی میراث کو
اپنی سانجھی وراثت کے ٹوٹے ہوئے ساز کو
اپنے دل سے لگائے
دل شکستہ و گریاں کھڑا ہوں
کیا کروں
اس کو ملبے میں ہی دفن کر دوں
مجھ سے یہ تو نہیں ہوگا
ایسا کرتا ہوں ٹوٹے ہوئے ساز کو
اپنی اولاد کو سونپ دوں
بس اسی آس پر
اسی امید میں
میرے بچے پھر اس ساز کو جوڑ کر
گیت الفت کے پھر گنگنانے لگیں
نفرتوں کو مٹانے لگیں
کاش یہ ہو سکے