کاش

کاش نور سحر کی کوئی کرن
زلف سے کرتی مجھ کو ہم آغوش
دل میں جل اٹھتی مشعل امید
دور ہوتی سیاہیٔ غم دوش


کاش مل جاتا نونہال کوئی
مجھ کو خوش رہنا جو سکھا دیتا
تاکہ میں حالت الم میں بھی
جھومتا گاتا مسکرا دیتا


کاش کوئی حسین دوشیزہ
راز معصومیت بتا دیتی
دل کو دھو کر ہوس کے دھبوں سے
حسن و الفت سے جگمگا دیتی


کاش مرد جواں کوئی ملتا
اور وہ سوز دل عطا کرتا
جس سے میں موت سے لڑاتا آنکھ
اور جینے کا حق ادا کرتا


کاش پیری وہ پر شکوہ ملے
وقت جس کو شکست دے نہ سکے
جس کی وہ چتونوں میں عزم شباب
کم سنی یاد آئے جب وہ ہنسے


کاش تاروں کا تابناک جمال
جان و تن میں مرے سما جاتا
دور ہو جاتی غم کی تاریکی
جس طرف ہو کے میں گزر جاتا