کار جنوں کی حالتیں، کار خدا خیال کر
کار جنوں کی حالتیں، کار خدا خیال کر
عشق کا میں جواب ہوں، اور کوئی سوال کر
اتنا تو مان رکھ مرا، ہجر کا درد چکھ ذرا
مجھ کو ترا ملال ہے، تو بھی مرا ملال کر
وقت کے انہدام میں، دل کی کتاب دب گئی
جانے کہاں لکھا تھا تو، سوچتا ہوں نکال کر
خواب میں خواب گھولنا، مہنگا پڑا ہے دوستو
خواب تمام ہو گیا، آنکھیں مری نکال کر
لوح و قلم کے فرض پر، میرا یہ عشق قرض ہے
اس نے تو میری خاک بھی، رکھی نہیں سنبھال کر