کاغذ قلم کتاب سے محروم ہو گئے
کاغذ قلم کتاب سے محروم ہو گئے
ہم جیتے جی جہان میں مرحوم ہو گئے
حاکم بنے تو کھو گئے دنیائے عیش میں
ساقی شراب جام کے محکوم ہو گئے
مقتول ہی پہ آ گیا الزام خودکشی
قاتل نگاہ عدل میں معصوم ہو گئے
غربت میں ساتھ چھوڑ دیا تو نے بھی مرا
معنی ترے خلوص کے معلوم ہو گئے
کس سے ملیں کہ ذہن نہیں ہے کسی کا صاف
سارے ہی لوگ شہر کے مسموم ہو گئے
جب زندگی میں دین تھا خوشیاں تھیں چار سو
غافل ہوئے تو دہر میں مغموم ہو گئے
مطلب پرست رہ گئے قیصرؔ جہان میں
جو پیکر خلوص تھے معدوم ہو گئے