کائنات حسن میں اک برہمی پاتی ہوں میں

کائنات حسن میں اک برہمی پاتی ہوں میں
زندگی میں زندگی ہی کی کمی پاتی ہوں میں


دیکھیے یوں چھو نہ لیجے دل کے تاروں کو مرے
آپ کی الجھی نگاہوں سے بھی گھبراتی ہوں میں


زخم دل زخم جگر کی بات پھر سے چھیڑئیے
ساز کے دل کش سروں پر اب غزل گاتی ہوں میں


یہ گراں باریٔ منزل یہ تمنائے حسیں
آپ کی پیہم نوازش کی قسم کھاتی ہوں میں


زندگی نے کیا دیا ہے مجھ کو اک غم کے سوا
زندگی میں رنگ بھرنے کب سے مسکاتی ہوں میں


میں نے سجدوں پر نہیں رکھا مدار زندگی
زندگی میں بندگی کا راز پا جاتی ہوں میں