جنون کارگر ہے اور میں ہوں
جنون کارگر ہے اور میں ہوں
حیات بے خبر ہے اور میں ہوں
مٹا کر دل نگاہ اولیں سے
تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں
کہاں میں آ گیا اے زور پرواز
وبال بال و پر ہے اور میں ہوں
نگاہ اولیں سے ہو کے برباد
تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں
مبارک باد ایام اسیری
غم دیوار و در ہے اور میں ہوں
تری جمعیتیں ہیں اور تو ہے
حیات منتشر ہے اور میں ہوں
کوئی ہو سست پیماں بھی تو یوں ہو
یہ شام بے سحر ہے اور میں ہوں
نگاہ بے محابا تیرے صدقے
کئی ٹکڑے جگر ہے اور میں ہوں
ٹھکانا ہے کچھ اس عذر ستم کا
تری نیچی نظر ہے اور میں ہوں
فراقؔ اک ایک حسرت مٹ رہی ہے
یہ ماتم رات بھر ہے اور میں ہوں