جگنو

کنارے جھیل کے پھرتا ہے جگنو
کبھی اڑتا کبھی گرتا ہے جگنو
ہوا کی گود میں اک روشنی ہے
کہ ننھی شمع کوئی اڑ رہی ہے
ستارہ سا چمکتا ہے فضا میں
شرارہ اڑتا پھرتا ہے ہوا میں
کوئی مہتاب سی چھوٹی ہے گویا
ستارے کی کرن ٹوٹی ہے گویا
اندھیرے میں سنہری تیتری ہے
کہ سونے کی کوئی ننھی پری ہے
ہری شاخوں پہ جگنو چھا گئے ہیں
زمیں پر یا ستارے آ گئے ہیں
منور سارے باغ اور بن ہیں ان سے
اندھیری ڈالیاں روشن ہیں ان سے
نہیں آرام سے سوتے مگر یہ
کہ اڑتے پھرتے ہیں یوں رات بھر یہ