جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو
جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچے سے
الٰہی راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو
علاج کیا کریں حکما تپ جدائی کا
سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو
نظیرؔ اپنا تو معشوق خوب صورت ہے
جو حسن اس میں ہے ایسا کوئی عجیب نہ ہو